ایک انگریز کی کہانی جب وہ کشمکش کا شکار ہوکر بے چین ہوا تو اسے سکون کہاں ملا چین کہاں ملا۔ انگریز کی کہانی خود ہی انگریز کی زبانی سنئے:
آر سی سی بوڈلی کہتا ہے کہ میں ایک ایسا انگریز ہوں جس نے سکول اور کالج کی زندگی پیرس میں گزاری۔ فوجی تعلیم سنڈھیرسٹ سے حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہندوستان میں فوجی خدمات حاصل کیں اور پہاڑی اور نیم پہاڑی روح افزاءمناظر اور قابل دید عمارات سے لطف اندوز ہوا۔ میری رسائی سابق وزیراعظم مسٹر لائیڈ جارج برطانیہ تک تھی لیکن ذہنی پریشانیوں اور تفکرات نے آگھیرا تو مجھے یورپ کے کسی شبینہ کلب، گرجے پر رونق بازاروں رقص و سرور کی محفلوں اور سیاستدانوں کے ایوانوں میں سکون نہ ملا۔ سکون ملا بھی تو شمالی افریقہ کے صحراﺅں کے خانہ بدوش مسلم قبائل کے خیموں میں۔
میری داستان آپ کو عجیب معلوم ہوگی مگر یہ حقیقت ہے۔ ذرا آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔
پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو مجھے اسسٹنٹ ملٹری اتاشی کی حیثیت سے برطانوی ٹیم کے ساتھ صلح کانفرنس میں بھیجا گیا۔ جنگ کے دنوں میں میرے ذہن میں یہ بٹھایا گیا تھا کہ ہم انسانیت، تہذیب و تمدن اور انصاف کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں لیکن یہاں کانفرنس کی باگ ڈورسیاست دانوں کے ہاتھ میں تھی۔ میں نے اس دوران سیاست دانوں کا اصل چہرہ دیکھا۔ جھوٹ، لالچ، مکاری، جعلسازی، خفیہ ڈپلومیسی اور قومی تعصبات کو ہوا دینا، الغرض ایسے دل دکھانے والے اور ہیبت ناک مناظر نے میرے ذہن میں انقلاب برپا کردیا۔
مجھے سیاستدانوں کے دغاوی، نام نہاد سماج، فوج بلکہ اپنے آپ سے نفرت ہوگئی۔ میں اتنا پریشان ہوا کہ میری راتوں کی نیند اڑ گئی۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ جلدی مجھے فوج کی اس عارضی ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ میں سابق وزیراعظم مسٹر لائیڈ جارج سے ملا اور اپنی پریشانیاں اور مسائل بیان کئے۔ ان کا مشورہ یہ تھا کہ میں سیاست میں حصہ لینا شروع کردوں۔ میرا دماغ گرم پانی کی طرح کھول رہا تھا مگر ان کا ارشاد تھا کہ میں سرخ دہکتے انگاروں میں چھلانگ لگادوں۔ میں مزید پریشان ہوگیا۔ خوش قسمتی سے میری ملاقات مشہور عرب جاسوس لارنس آف عربیا سے ہوئی۔
میرے تفکرات معلوم کرکے انہوں نے سفارش کی کہ میں کسی عرب خانہ بدوش قبیلہ میں جاکر رہوں۔ میں شمالی افریقہ پہنچا اور عربوں کے ایک قبیلہ میں ان کی اجازت سے رہنے لگا۔ میں نے ان کی زبان، لباس، اور معاشرت اختیار کرلی اور ان کے ساتھ مل کر رہنے لگا اور انہی کی خوراک کھانے لگا۔ میں نے کچھ بھیڑیں خرید لیں اور انہیں چرانے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ میرا اضطراب اور پریشانیاں دور ہونے لگیں ہیں جن باتوں نے مجھے نئی دنیا دی اور متاثر کیا ان کا تذکرہ ملاحظہ کیجئے۔
.1مجھے مذہب اسلام کو نزدیک سے دیکھنے اور اس کی تفصیلات معلوم کرنے کا موقع ملا۔
.2مجھے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کلام ربانی ہے۔ گو الفاظ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مختلف مواقع پر ادا ہوتے تھے اور حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھوا دیتے۔ یا حفاظ کو یاد کرادیتے۔
.3مجھے بتایا گیا کہ ہر شخص کی تقدیر اور قسمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے لکھ دی جاتی ہے۔ لہٰذا جب ان کا بڑے سے بڑا کام بگڑ جاتا تو وہ قطعاً پریشان نہ ہوتے اور صرف اس قدر کہتے ”اللہ کی طرف سے ایسا ہی لکھا تھا“۔
.4ایک دفعہ تین روز متواتر اتنی سخت آندھی چلی کہ کروڑوں من ریت افریقہ کے ساحل سے اڑ کر سپین اور فرانس کی وادیوں میں گرنے لگی۔ میں پریشان ہوگیا لیکن جب عرب دوستوں کی طرف نگاہ کی تو وہاں اضطراب کا نام و نشان نہ تھا۔ انہوں نے کہا ”اللہ کی یہی مرضی تھی“۔
.5طوفان تھما تو گھاس کا ایک تنکا نہ رہا۔ عربوں نے بھیڑوں کے تمام دودھ پیتے بچے فروخت کردیئے یا ذبح کردیئے اور اپنی بھیڑیں جوانوں کو دے کر انہیں پانی کے چشموں اور گھاس کے میدان تک پہنچانے کا حکم دیا۔ ہر گھر کی تقریباً ساٹھ فیصد دولت تباہ ہوگئی تھی یا چشموں تک پہنچنے تک ختم ہونے والی تھی لیکن ان کے چہروں پر کوئی پریشانی نہ تھی گھر کے ہر بزرگ کی زبان پر یہی الفاظ تھے ”اللہ کی یہی مرضی تھی“ ۔
.6ایک دن میں عرب دوستوں کو موٹر ٹرک میں بٹھائے جارہا تھا کہ ایک پہیہ پنکچر ہوگیا۔ فالتو پہیہ پاس نہ تھا۔ ہم تین پہیوں پر چلے تو پٹرول ختم ہوگیا۔ میں ڈرائیور پر برس پڑا لیکن عرب بزرگ کہنے لگے ”اللہ کی یہی مرضی تھی“۔
میں نے اسی حالت میں سات سال بسر کئے۔ سکون فراہم کرنے والا مذہب اور عقیدہ پرسکون اور خوشگوار زندگی میں جب کبھی نقصان پر کڑھنے لگتا تو بزرگوں کا ایک فقرہ ”بیٹا اللہ کی یہی مرضی تھی“ مجھے وہ سکون دیتا جو موجودہ تہذیب کی رقص و موسیقی، رقص سے آراستہ کلچر، پر رونق سڑکیں اور بازار اور نئی تعلیم کہیں سے بھی نہ دے سکتے تھے۔
یہ تھا ایک انگریز کا قصہ جس نے ایک فقرے کو اپنی زندگی کا حصہ بناکر اپنے اس سکون کو جس کووہ کھوچکا تھا واپس حاصل کرلیا۔
اوردوسری طرف ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید جیسی لازوال دولت کے ہوتے ہوئے بھی ہم انگریزوں کی ہر بات پر لبیک کہتے ہیں۔ ان کی ہر دوائی پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہیں۔ سکون چھن جائے یا وہم وساوس گھیر لیں تو سکون آور ادویات میں علاج تلاش کرتے ہیں۔ اگر ایک انگریز کشمکش کا شکار ہوکر دین اسلام میں پناہ ڈھونڈتا ہے تو پھر ہم کیوں نہیں ڈھونڈ سکتے۔ کیا قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی پناہ کی راہ دکھا سکتا ہے؟ سکون کی راہ دکھا سکتا ہے؟ بخشش کی راہ دکھا سکتا ہے؟ معافی کی راہ دکھا سکتا ہے؟ وہم کا تدارک کرکے ایک راستے کا تعین دکھا سکتا ہے؟ اپنی تقدیر اور تدبیر اور ذات کو ہم صرف قرآن مجید پر عمل کرتے ہوئے ہی نجات کے راستے پر گامزن ہوسکتے ہیں۔
کیا انسان کا باغیانہ رویہ ہی اسے نفسیاتی مریض بننے پر مجبور کررہا ہے کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہے ؟کیوں ہوا تھا؟ ۔ دوسروں کے پاس یہ چیز ہے، میرے پاس نہیں ہے۔ چاہے وہ علم ہو، دولت ہو شکل ہو، یہ چیزیں ذہنی انتشار کا سبب بنتی ہیں۔ اس نے یہ کیوں کیا؟ میں نے یہ کیوں کیا؟ اس سے یہ غلطی کیوں سرزد ہوئی؟ مجھ سے یہ غلطی سرزد ہوئی؟ اسی باغیانہ سوچوں کے بجائے اگر ہم بھی یہ سوچ لیں اور کہیں کہ ”اللہ کی یہی مرضی تھی“ تو ہماری دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 497
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں